Friday, 28 July 2017

34.
اُٹھا کر چُوم لی ہیں چند مُرجھائی ہوئی کلیاں
نہ تم آئے تو یُوں جشنِ بہاراں کرلیا میں نے
کسی کے اک تبس٘م پر اساسِ زندگی رکھ لی
شراروں کو نشیمن کا نگہباں کر لیا مَیں نے
کبھی ســاغر بکف مَیں وجد میں آیا جـــو لہرا کر
تو اپنے ساتھ دُنیا کو بھی رقصاں کر لیا میں نے
(ساغرصدیقی)


No comments:

Post a Comment