47.
ناروا تھا ، نا مناسب تھا مگر اچھا لگا
بے وفا اک ، دشمنوں کی پشت پر اچھا لگا
وہ اچانک لوٹ آیا توڑ کر رسم فراق
گرمیوں میں سرد موسم کا ثمر اچھا لگا
لگ گءی شاید مجھے آوارگی کی بد دعا
لوٹ کے اب کے میں آیاہوں تو گھر اچھا لگا
ہر کسی سے ہنس کے ملنا ، خوش دلی سے بولنا
میرا دشمن ہے مگر اس کا ہنر اچھا لگا
یہ محبت ہے مری یا اس کا ہے کوءی کمال
جس قدر پرکھا اسے وہ اس قدر اچھا لگا
آنے والے موسموں کی سختیوں کے ذکر پر
اس کے چہرے پر اکیلے پن کا ڈر اچھا لگا
اب کے اس کے قرب کی جنت بھی دیکھی پاس سے
اب کے مجھ کو خواب زاروں کا سفر اچھا لگا
میرے بارے میں مجھی سے پوچھتا ہے وہ نعیم
اس خبر کے دور میں اک بے خبر اچھا لگا
﴾محمد نعیم جاوید نعیم﴿
No comments:
Post a Comment