48.
فریب زاروں میں ساتھ چلنے کی قسموں، وعدوں، دعا کی باتیں
چلو کہ اک بے وفا سے کرتے ہیں، اس کے عہدِوفا کی باتیں
عجیب سا اعتماد دیتی ہے یہ محبت بھی آدمی کو
فنا کے پیکر اسے ملے ہیں تو کر رہے ہیں بقا کی باتیں
سکون دل کی دلیل کیا ہے، قرارِجاں کا سراغ کیا ہے
ہجومِ دنیا کی وحشتوں کو سناءو غارِ حرا کی باتیں
وہ مسکرائے تو پھیل جاتی ہیں، شہرِ جاں کی گلی گلی میں
گلاب موسم کی، رنگ و خوشبو کی، روشنی کی، ضیا کی باتیں
بس اس قدر جھوٹ بولتا ہوں، اسی قدر ہے قصور میرا
کہ جیسے صحرا میں بارشوں کی، قفس میں بادِصبا کی باتیں
پھر ایک دن وہ پہاڑ جیسا وجود بکھرا ہوا پڑا تھا
جسے یقیں تھا، ہیں جھوٹ ساری، شکستِ ذات و انا کی باتیں
نعیم اب تو مزاج سب کا اسی طرح کا بنا ہُوا ہے
دِلوں میں الفت بتوں کی رکھنا، زباں سے کرنا خُدا کی باتیں
محمد نعیم جاوید نعیم
No comments:
Post a Comment