Tuesday, 16 January 2018

48.
فریب زاروں میں ساتھ چلنے کی قسموں، وعدوں، دعا کی باتیں
چلو کہ اک بے وفا سے کرتے ہیں، اس کے عہدِوفا کی باتیں
عجیب سا اعتماد دیتی ہے یہ محبت بھی آدمی کو 
فنا کے پیکر اسے ملے ہیں تو کر رہے ہیں بقا کی باتیں
سکون دل کی دلیل کیا ہے، قرارِجاں کا سراغ کیا ہے
ہجومِ دنیا کی وحشتوں کو سناءو غارِ حرا کی باتیں
وہ مسکرائے تو پھیل جاتی ہیں، شہرِ جاں کی گلی گلی میں
گلاب موسم کی، رنگ و خوشبو کی، روشنی کی، ضیا کی باتیں
بس اس قدر جھوٹ بولتا ہوں، اسی قدر ہے قصور میرا
کہ جیسے صحرا میں بارشوں کی، قفس میں بادِصبا کی باتیں
پھر ایک دن وہ پہاڑ جیسا وجود بکھرا ہوا پڑا تھا
جسے یقیں تھا، ہیں جھوٹ ساری، شکستِ ذات و انا کی باتیں
نعیم اب تو مزاج سب کا اسی طرح کا بنا ہُوا ہے
دِلوں میں الفت بتوں کی رکھنا، زباں سے کرنا خُدا کی باتیں
محمد نعیم جاوید نعیم






Monday, 25 December 2017

47.
ناروا تھا ، نا مناسب تھا مگر اچھا لگا
بے وفا اک ، دشمنوں کی پشت پر اچھا لگا
وہ اچانک لوٹ آیا توڑ کر رسم فراق
گرمیوں میں سرد موسم کا ثمر اچھا لگا
لگ گءی شاید مجھے آوارگی کی بد دعا
لوٹ کے اب کے میں آیاہوں تو گھر اچھا لگا
ہر کسی سے ہنس کے ملنا ، خوش دلی سے بولنا
میرا دشمن ہے مگر اس کا ہنر اچھا لگا
یہ محبت ہے مری یا اس کا ہے کوءی کمال
جس قدر پرکھا اسے وہ اس قدر اچھا لگا
آنے والے موسموں کی سختیوں کے ذکر پر
اس کے چہرے پر اکیلے پن کا ڈر اچھا لگا
اب کے اس کے قرب کی جنت بھی دیکھی پاس سے
اب کے مجھ کو خواب زاروں کا سفر اچھا لگا
میرے بارے میں مجھی سے پوچھتا ہے وہ نعیم
اس خبر کے دور میں اک بے خبر اچھا لگا
﴾محمد نعیم جاوید نعیم﴿



Sunday, 24 December 2017

46.
اس زمیں پر اس کا مسکن، اس کا گھر لگتا نہ تھا
اس قدر وہ خوبصورت تھا،  بشر لگتا نہ تھا
ھجر کا مقتل ہو یا سولی وصال یار کی
اک زمانہ تھا کسی سے ، کوئی ڈر لگتا نہ تھا
جس قدر میں تھک گیا تھا اس کو طے کرتے ہوئے
دیکھنے میں اس قدر لمبا سفر لگتا نہ تھا
دور مجھ سے کردیا کتنا اناؤں نے اسے
میرے شانوں پر لگا میرا ہی سر لگتا نہ تھا
کر رہا تھا جس طرح سے سچی محبت کی تلاش
آنے والے موسموں سے بے خبر لگتا نہ تھا
وہ تو اس نے چھو لیا اک دن محبت سے مجھے
ورنہ مجھ پہ پھول کھلتے تھے ثمر لگتا نہ تھا
جس قدر بدنام تھا شہر وفا میں وہ نعیم
بے وفا پہلی نظر میں اس قدرلگتا نہ تھا
(محمد نعیم جاوید نعیم)



Sunday, 10 December 2017

45.
تم میرا بدن اوڑھ کے پھرتےرہو لیکن
ممکن ہو تو اک دن مرا چہرہ مجھے دینا
چھو جائے ہوا جس سے تو خوشبو تری آئے
جاتے ہوئے اک زخم تو ایسا مجھے دینا
اک درد کا میلہ کہ لگا ہے دل و جاں میں
اک روح کی آواز کہ  رستہ مجھے دینا
اک تازہ غزل اذن سخن مانگ رہی ہے
تم اپنا مہکتا ہوا لہجہ مجھے دینا
وہ مجھ سے کہیں بڑھ کے مصیبت میں تھا محسن
رہ رہ کے مگر اس کا دلاسہ مجھے دینا
(محسن نقوی)


Saturday, 9 December 2017

44.
اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
ابر کی زد میں ستارہ نہیں دیکھا جاتا 
اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
زیرخنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا
موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی
ڈوبنا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا
تیرے چہرے کی کشش تھی جو پلٹ کر دیکھا 
ورنہ سورج تو دوبارا نہیں دیکھا جاتا
اگ کی ضدپہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے
راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا
زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے
اب تو ابرو کا اشارہ نہیں دیکھا جاتا
کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسن
دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا

(محسن نقوی)